ہفتہ، 2 اکتوبر، 2021

خواتین کی ترقی میں خواتین ہی رکاوٹ( کرن قاسم)

 اچھی کارکردگی سے آپ کی پہچان

تحریر کرن قاسم ۔۔۔۔

جب اپ کوئی اچھا کام کرتے ہیں عوامی مفاد میں تب اپ کی پہچان عوام میں بڑھ جاتی ہے اپ اچھے نام سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں لوگ  مختلف محفلوں میں اپ کے اچھے کاموں کا تذکرہ کرتے تھکتے نہیں۔۔۔عوام اپ سے ملنے کی خواہش رکھتے ہیں اپ کے ساتھ تصویر بنانا فخر محسوس کرتے ہیں ۔۔۔کیونکہ اپ عوامی لیڈر کے صف میں آکھڑا ہوتے ہو اپنے اچھے کام اخلاق کی وجہ سے عوام کے دل میں جگہ بنا لیتے ہو۔۔۔ بلکل قارئین جب سے گلگت بلتستان میں صوبائی سیٹ اپ کا درجہ دیا گیا ہے تب سے گلگت بلتستان میں اسمبلی کے لئے خواتین کے لئے مختص نشستوں پہ خواتین کا انتخاب کا عمل انتہائی دلچسپ ہوتا جارہا ہے ۔۔۔۔2009 میں 6خواتین اسمبلی میں آئی جن میں سعدیہ دانش نے اپنا ایک مقام بنایا جس نے محنت کی اور اپنے محنت کے بل بوتے پہ اپنے لیے بہترین جگہ بنائی اور اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی پارٹی سے دور نہیں رہی پارٹی کے ساتھ رہی ہر میٹنگ میں پیش پیش رہی ۔۔اسوقت سعدیہ دانش کے ساتھ۔۔۔یاسمین نظر صاحبہ بھی تھی جو پارلیمانی سیکٹری رہی جیسے ہی حکومت کی مدت پوری ہوئی یاسمین نظر اپنی فیملی کے ساتھ امریکہ شفٹ ہوئی۔۔۔۔شیرین فاطمہ بھی اسمبلی ممبر رہی مگر تاحال پارٹی کے ساتھ وفادار ہے۔۔۔مہناز ولی صاحبہ بھی تھی جو جمعیت علماء اسلام کے ٹکٹ سے اسمبلی کی مخصوص نشست میں اپنی جگہ بنانے میں  کامیاب ہوئی مگر حکومت کی  مدت ختم ہونے کے بعد منظر عام سے ہی غائب ہوئی ۔۔۔آمنہ انصاری صاحبہ بھی ممبر اسمبلی تھی ق لیگ کے ٹکٹ سے بعد میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر کے اسمبلی کے جنرل سیٹ کے لئے الیکشن لڑی مگر کامیاب نہیں ہو سکی آمنہ انصاری بھی اپنے منفرد انداز اور رویے کی وجہ عوام میں مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔۔۔دیامر سے مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی گل میرا صاحبہ بھی خاموش رکن کی حثیت سے رہی ۔۔۔۔۔۔2015 میں بھی مخصوص نشست پہ 6خواتین منتخب ہوئی پاکستان مسلم لیگ ن سے ثوبیہ مقدم ،نسرین بانو ،رانی عتیقہ، شیرین اختر،اور اپوزیشن جماعت سے تحریک اسلامی کی ریحانہ عبادیاور مجلس وحدت المسلمین سے بی بی سلیمہ ۔۔۔۔مختصر یہ کہ ان خواتین اسمبلی نے گلگت بلتستان کی خواتین کی فلاح کے کوئی تاریخی پروجیکٹ دینے میں مکمل ناکام رہی ۔۔۔نہ ہی مستقل بنیادوں پر ووکیشنل سینٹر کا قیام عمل لا سکی نہ ہی خواتین کے حقوق کے متعلق قانون سازی کر سکی ۔۔۔خواتین ممبران اسمبلی نے خاموشی سے 5سال گزارے۔۔اور یہ خواتین میڈیا سے بھی دور رہی ۔۔۔2020 کے الیکشن کے بعد بھی کچھ خواتین اسمبلی کا حصہ بنی جن میں مجلس وحدت المسلمین کی کنیز فاطمہ،پاکستان تحریک انصاف کی،کلثوم الیاس،دلشاد بانو،ثریا زمان اور اپوزیشن جماعت سے پاکستان پیپلزپارٹی کی سعدیہ دانش اور پاکستان مسلم لیگ ن سے رانی صنم فریاد  شامل ہے اور ان حکمران جماعت کی  ممبران خواتین اسمبلی کو کوئی وزیر کا عہدہ نہیں دیا گیا۔۔حکمران جماعت کا کہنا تھا کہ جو الیکشن لڑ کے اسمبلی ائے ہیں ان کو اہمیت دی گئ خواتین تو اسانی سے اسمبلی ائی ان کی کوئی محنت نہیں ۔۔۔جو کچھ ان کو ملا ہے اس کو غنیمت جان کے گلگت بلتستان کی خواتین کے لئے کام کرے۔۔۔ممبران خواتین اسمبلی صرف خواتین کی ترقی کے لئے کام کرے اپنی ADP خواتین کے فلاح و بہبود کے منصوبوں پہ مختص کرے۔۔۔۔کیونکہ عوامی مفاد کے منصوبے دینے کے لئے عوامی نمائندے موجود ہے۔۔۔۔اگر ممبران خواتین اسمبلی صیح معنوں میں گلگت بلتستان کی خواتین کے لئے کام کرے گی خواتین کے حقوق کے متعلق قانون سازی کرے گی۔۔گلگت بلتستان کے دور دراز کے علاقوں کا دورہ کر کے مسائل جاننے کی کوشش کرے گی ۔۔۔۔خواتین کے کن امور پہ قانون سازی کی ضرورت ہے کسی ماہرین سے رابطہ کر کے قانون سازی کرے گی۔۔اور گلگت بلتستان کی خواتین کو ہنر مند بنانے کے لئے دستکاری کی تربیت گاہ قائم کرے گی۔۔۔دور جدید کے تقاضوں سے خواتین کو ہم اہنگ کرنے کے لئے کمپیوٹر کی تعلیم دے گی ۔۔۔خواتین کو کوکنگ کی تربیت گاہ قائم کرے گی۔۔۔کاروبار سے منسلک خواتین کو کاروبار اور تجارت کے حوالے سے تربیت کے ساتھ اسان اقساط پہ قرضہ فراہم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے گی ۔۔۔۔اس قسم کے منصوبے دینے سے خواتین ترقی کے راہوں پہ گامزن ہوگی اور خواتین کے لئے روزگار کا حصول بھی ممکن ہوگا۔۔۔۔اگر ان منصوبوں پہ عملی طور پر کام کرے گے ایسی خواتین ممبران اسمبلی کا نام رہتی دنیا تک رہے گا۔۔۔۔اگر روایتی انداز میں چلے گی تو گلگت بلتستان میں خواتین کی ترقی خواب ثابت ہو گا۔۔۔۔۔۔اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ اسمبلی جانے کے بعد ممبرز سکھینگے اور تب جا کے عوام کے مفاد میں کام کرینگے لیکن میں اتنا ہی کہوں گی اسمبلی نہ کوئی تربیت گاہ ہے نہ درسگاہ جہاں سے کوئی ممبر سیکھ کے نکلے بلکہ اسمبلی وہ جگہ ہے جہاں پہ گلگت بلتستان  کے عوام مستقبل کے فیصلے کئے جاتے ہیں جہاں پہ قانون سازی کی جاتی ہے ۔۔۔اسمبلی میں پہلے بھی عوامی نمائندے تھے  اور خواتین ممبران اسمبلی تھی جو کافی کچھ سیکھ کے نکلی مگر ان کو دوبارہ ان کی تجربے کی وجہ سے نہیں چنا گیا کیوں کے ان کی کارکردگی صفر تھی ۔۔ ۔اس لئے خواتین ممبران اسمبلی اپ کے لیے بھی 5سال سیکھنے سمجھنے کے نہیں بلکہ خواتین کے حقوق کے متعلق قانون سازی کرنا ہے خواتین کو بااختیار بنانا ہے۔۔۔۔۔۔


4 تبصرے:

  1. بہت اعلی عمدہ یقینا کرن قاسم نے ہر پہلو سے جائزہ لیا ہے سرخ سلام

    جواب دیںحذف کریں
  2. لکین ہمارے یہاں گلگلت میں اب بھی عورتیں وہی پرانی اور کہلانا سوچ لیے ہوئے ہیں اور وہی ایک دوسرے کے خلاف

    جواب دیںحذف کریں

کرونا وبا نے بےروزگار کردیا۔۔۔

 تحریرکرن قاسم سے  سانحہ عطاءآباد اور کرونا وائرس نے گلگت بلتستان کے کئی تاجروں کو بے روزگار کر دیا اور امپورٹ ایکسپورٹ کا کام چھوڑ کر ممتو ...